جی

السلام علیکم..  دانا اپنی دانائی کو چھپاتا ھے،جبکھ احمق اپنی حماقت کی تشھیر کرتا ھے.

آخری وقت

~ آخری وقت ~~~

ہر آدمی کا آخری وقت مقرر ہے..کسی پر سوتے ہوئے وہ وقت آجاتا ہے کوئی راہ چلتے پکڑ لیا جاتا ہے..کوئی بستر پر بیمار ہو کے مرتا ہے..یہ وقت بہرحال ہر ایک پر آنا ہے..خوا وہ ایک صورت میں آئے یا کسی دوسری صورت میں...موت کا یہ واقعہ بھی کیسا عجیب ہے..ایک جیتی جاگتی زندگی اچانک بجھ جاتی ہے ایک ہنستا ہوا چہرہ لمحہ بھر میں اس طرح ختم ہوجاتا ہے..جیسے کہ وہ مٹی سے بھی زیادہ بےقیمت تھا...

حوصلوں اور تمناؤں سے بھری ہوئی ایک روح اس طرح منظرِ عام سے ہٹا دی جاتی ہے جیسے اس کے حوصلوں اور تمناؤں کی کوئی قیمت ہی نہ تھی...زندگی کس قدر بامعنی ہے..مگر اس کا انجام اس کو کس قدر بےمعنی بنادیتا ہے..آدمی بظاہر کتنا آزاد ہے مگر موت کے سامنے کس قدر مجبور ہے..آدمی اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو کتنا زیادہ عزیز رکھتا ہے..مگر قدرت کا فیصلہ اس کی خواہشوں اور تمناؤں کو کس قدر بےرحمی سے کچل دیتا ہے...آدمی اگر صرف اپنی موت کو یاد رکھے تو کبھی سرکشی نہ کرے..بہتر زندگی کا واحد راز یہ ہے..کہ ہر آدمی اپنی حد کے اندر رہنے پر راضی ہوجائے.. اور موت بلاشبہ اس حقیقت کی سب سے بڑی معلم ہے..موت آدمی کو بتاتی ہے کہ وہ کسی کو حقیر نہ سمجھے..کیونکہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ وہ خود سب سے زیادہ حقیر ہوگا..موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ وہ کسی کو نہ دبائے.. کیونکہ بہت جلد وہ خود ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا ہوگا...
💦🌷💦

برکت

کیا زبر دست تحریر ہے نصیحت آمیز کہیں سے ہاتھ لگی تو میں نے سوچا شیئر کردی جائے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکات
۔
ايک شخص ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے بحث کررہا تھاکہ برکت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔
ابراہیم بن ادہم نے کہا کہ تم نے کتے اور بکریاں دیکھیں ہیں وہ شخص بولا ہاں ۔ابراہیم بن ادہم بولے سب سے زیادہ بچے کون جنتاہے کتے یابکری وہ بولا کہ کتے ۔ابراہیم بن ادہم بولے تم کو بکریاں زیادہ نظر آتیں ہیں یاکتے وہ بولا بکریاں ۔ابراہیم بن ادہم بولے جبکہ بکریاں ذبح ہوتیں مگر پھر بھی کم نہیں ہوتیں توکیا برکت نہیں ہے اسی کانام برکت ہے ۔پھر وہ شخص بولا کہ ایسا کیوں ہے کہ بکریوں میں برکت ہے اور کتے میں نہیں ۔ابراہیم بن ادہم بولے کہ بکریاں رات ہوتے ہی فورا سوجاتیں ہیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتیں ہیں اور یہ نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے لہذا ان میں برکت حاصل ہوتی ہے ۔اور کتے رات بھر بھونکتے ہیں اور فجر کے قریب سوجاتے ہیں لہذا رحمت وبرکت سے محروم  ہوتے ہیں ۔پس غوروفکر کامقام ہے آج ہمارابھی یہی حال ہے ہم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ہیں اور وقت نزول رحمت ہم سوجاتے ہیں اسی وجہ سے آج نہ ہی ہمارے مال میں اور نہ ہی ہماری اولاد میں اورنہ ہی کسی چیز میں برکت حاصل ہوتی ہے ۔
ذرا نہیں۔۔۔پورا سوچیئے

تنقید

ارسطو نے کھلے دل سے  تنقید کو قبول کیا ہے۔ اسی لیے اس نے کہا کہ
To avoid Criticism say nothing, do nothing, be nothing
 ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
 مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
 کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

 یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
 وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

 کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
 چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
 بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
🥚 *آج کی ماں*🥚

*اکثر سڑک پر سے گزرتے ہوئے*
 *میری نظر کھچا کھچ بھرے ہوئے ریستورانوں اور ہوٹلوں پر پڑتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہم کیسی نادان قوم ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں اپنے مستقبل کے سرمائے کو کھانے کے نام پر کیا کھلا رہے ہیں*۔

🍱 اجنبی ہاتھوں سے بنا ہوا کھانا
جس میں پکانے والوں کے ہاتھ کی
اجنبی  سی تاثیر رچی بسی ہے
اس تاثیر میں نہ *ماں کی مامتا* ہے
نہ *باپ کی شفقت* ہے
ہے تو کیا
صرف اور صرف *بزنس اور بزنس*؟؟؟؟؟؟؟؟؟

🎤 *پھر موسیقی اور بھانت بھانت کے لوگوں کے چہرے اور ان کی آوازوں سے سجا ہوا عجیب و غریب ماحول*

🍂اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ
*شیور مرغی*۔۔

🍂  یا وہ کڑاہی گوشت
جس کے بارے🥚 *آج کی ماں*🥚

*اکثر سڑک پر سے گزرتے ہوئے*
 *میری نظر کھچا کھچ بھرے ہوئے ریستورانوں اور ہوٹلوں پر پڑتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہم کیسی نادان قوم ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں اپنے مستقبل کے سرمائے کو کھانے کے نام پر کیا کھلا رہے ہیں*۔

🍱 اجنبی ہاتھوں سے بنا ہوا کھانا
جس میں پکانے والوں کے ہاتھ کی
اجنبی  سی تاثیر رچی بسی ہے
اس تاثیر میں نہ *ماں کی مامتا* ہے
نہ *باپ کی شفقت* ہے
ہے تو کیا
صرف اور صرف *بزنس اور بزنس*؟؟؟؟؟؟؟؟؟

🎤 *پھر موسیقی اور بھانت بھانت کے لوگوں کے چہرے اور ان کی آوازوں سے سجا ہوا عجیب و غریب ماحول*

🍂اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ
*شیور مرغی*۔۔

🍂  یا وہ کڑاہی گوشت
جس کے بارے
میں خود آپ کو یقین نہیں ہے کہ یہ واقعی
اصل میں کس جانور کا ہے

🍂🍂  *چائینیز نمک اور میدے سے بنی ڈشز*
جو نہ *طاقت* دے سکتی ہیں نہ *صحت*
بلکہ *قبض* اور دیگر بیماریوں کی انتہائی معاون۔

🍨🍧  پھر *کیمیکلز* اور *فوڈ کلرز* سے بنی ہوئی *آئس کریم*

🍷 *اور زہر قاتل سوفٹ ڈرنکس*
جو ننھے منے معدوں
میں جا کر کیا کیا نقصان پیدا کرتی ہوں گی

............ *لیکن بچہ ہے ناں*!!!!

 آپ کو کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ پاپا یہ آپ مجھے کیوں پلا رہے ہیں؟؟؟؟؟

🍷🍷🍷  *یہ تو دنیا کے ہر ڈاکٹر کے نزدیک ہماری صحت کے لیئے نقصان دہ چیز ٹھہری*۔

💯💯  یقین مانیں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے
بچوں کو سب کھلا کر کیا بنانا چاہتے ہیں
ایک ایسا ضعیف و کمزور مسلمان
جس کے پاس چالیس سال کی عمر میں
 *شوگر بلڈ پریشر اور کینسر*
کے بعد نہ *جسمانی صحت* بچتی ہے
نہ *ایمانی قوت*۔

👈🏻  *کیا آپ کو اندر سے یقین ہے کہ یہ کھانے کھا کر آپ کا  بچہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکے گا*

🎗    *صحت* کے لحاظ سے
🎗   *فرمانبرداری* کے لحاظ سے
🎗  *دین داری* کے لحاظ سے؟؟؟

🙏🏻  خدارا اپنے بچوں کو گھر کے کھانے کی
عادت ڈالیں۔

🌾  *جن کے کلچر والا کھانا*
*اور ماحول اپنے بچوں کو آپ دے رہے ہیں ان کے بچے*
*بڑھاپے میں انہیں اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں*

کہ ماں کے ہاتھ کا کھانا اور اس کے
ذریعے پیار اور مامتا ان کے اندر
کبھی منتقل ہو نہیں سکی۔

🍔🍕  یہ کیا کہ ہفتے میں تین چار بار
اس کے چھوٹے سے معدے میں
کھانے کے نام پر
*میدے سے بنا ہوا بند برگر* اور
*دانتوں کو گلا دینے والی پیپسی*
انڈیل دی جائے؟

❓❓  کیا اس طرح کر کے ہم اپنی اولاد
کا *حق ادا کر رہے ہیں*
*یا اصل میں حق تلفی کر رہے ہیں*؟

♻.. کیا ایک ننھا مہمان جو آپ کے گھر
روشنی بن کر آتا ہے
اس کا اتنا حق نہیں بنتا
کہ آپ اسے گھر کے پیارے سے
صاف سے کچن میں
اپنے ہاتھوں سے بنا ہوا
صحت مند اجزا والی خوراک کھلائیں؟

✋🏻  یاد رکھیں!!!!! ۔

*دنیا کا کوئی شیف*
*کوئی بیرا کوئی مشہور ترین ریسٹورنٹ*،
 *گھر کے صاف ستھرے باورچی خانے*
*میں ماں کے مامتا بھرے ہاتھوں سے*
*بنے ہوئے کھانے کا مقابلہ*
*نہیں کر سکتا نہ کبھی کر سکے گا*۔


🍌🍎🍇🥦🥒🥚〰〰〰〰〰🍕🍔🍷🌭🍟🥪
میں خود آپ کو یقین نہیں ہے کہ یہ واقعی
اصل میں کس جانور کا ہے

🍂🍂  *چائینیز نمک اور میدے سے بنی ڈشز*
جو نہ *طاقت* دے سکتی ہیں نہ *صحت*
بلکہ *قبض* اور دیگر بیماریوں کی انتہائی معاون۔

🍨🍧  پھر *کیمیکلز* اور *فوڈ کلرز* سے بنی ہوئی *آئس کریم*

🍷 *اور زہر قاتل سوفٹ ڈرنکس*
جو ننھے منے معدوں
میں جا کر کیا کیا نقصان پیدا کرتی ہوں گی

............ *لیکن بچہ ہے ناں*!!!!

 آپ کو کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ پاپا یہ آپ مجھے کیوں پلا رہے ہیں؟؟؟؟؟

🍷🍷🍷  *یہ تو دنیا کے ہر ڈاکٹر کے نزدیک ہماری صحت کے لیئے نقصان دہ چیز ٹھہری*۔

💯💯  یقین مانیں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے
بچوں کو سب کھلا کر کیا بنانا چاہتے ہیں
ایک ایسا ضعیف و کمزور مسلمان
جس کے پاس چالیس سال کی عمر میں
 *شوگر بلڈ پریشر اور کینسر*
کے بعد نہ *جسمانی صحت* بچتی ہے
نہ *ایمانی قوت*۔

👈🏻  *کیا آپ کو اندر سے یقین ہے کہ یہ کھانے کھا کر آپ کا  بچہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکے گا*

🎗    *صحت* کے لحاظ سے
🎗   *فرمانبرداری* کے لحاظ سے
🎗  *دین داری* کے لحاظ سے؟؟؟

🙏🏻  خدارا اپنے بچوں کو گھر کے کھانے کی
عادت ڈالیں۔

🌾  *جن کے کلچر والا کھانا*
*اور ماحول اپنے بچوں کو آپ دے رہے ہیں ان کے بچے*
*بڑھاپے میں انہیں اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں*

کہ ماں کے ہاتھ کا کھانا اور اس کے
ذریعے پیار اور مامتا ان کے اندر
کبھی منتقل ہو نہیں سکی۔

🍔🍕  یہ کیا کہ ہفتے میں تین چار بار
اس کے چھوٹے سے معدے میں
کھانے کے نام پر
*میدے سے بنا ہوا بند برگر* اور
*دانتوں کو گلا دینے والی پیپسی*
انڈیل دی جائے؟

❓❓  کیا اس طرح کر کے ہم اپنی اولاد
کا *حق ادا کر رہے ہیں*
*یا اصل میں حق تلفی کر رہے ہیں*؟

♻.. کیا ایک ننھا مہمان جو آپ کے گھر
روشنی بن کر آتا ہے
اس کا اتنا حق نہیں بنتا
کہ آپ اسے گھر کے پیارے سے
صاف سے کچن میں
اپنے ہاتھوں سے بنا ہوا
صحت مند اجزا والی خوراک کھلائیں؟

✋🏻  یاد رکھیں!!!!! ۔

*دنیا کا کوئی شیف*
*کوئی بیرا کوئی مشہور ترین ریسٹورنٹ*،
 *گھر کے صاف ستھرے باورچی خانے*
*میں ماں کے مامتا بھرے ہاتھوں سے*
*بنے ہوئے کھانے کا مقابلہ*
*نہیں کر سکتا نہ کبھی کر سکے گا*۔


🍌🍎🍇🥦🥒🥚〰〰〰〰〰🍕🍔🍷🌭🍟🥪

خوبصورت بات

ایک خوبصورت اور باوقار گفتگو ایک خوبصورت زبان سے نکلتی ہے۔
 اور ایک خوبصورت زبان خوبصورت دل کی عکاسی کرتی ہے

 اور ایک خوبصورت دل ایک خوبصورت انسان کی عکاسی کرتا ہے لہذا اگر گفتگو بہترین بنانا چاہتے ہیں
تو خوبصورت دل کے مالک بنیے ایسا دل جو حسد تجسس بدگمانی اور منفی خیالات سے پاک ہو


🌹🌱🌷

5 questions پانچ سوال

ایک مرید نے مولانا رُوم سے 5 سوال پوچھے ۔
مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں

سوال ۔ 1 ۔ زہر کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ” زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت  یا اقتدار ہو ۔ انانیت ہو ۔ دولت ہو ۔ بھوک ہو ۔ لالچ ہو ۔ سُستی یا کاہلی ہو ۔ عزم و ہِمت ہو ۔ نفرت ہو یا کچھ  بھی ہو

سوال ۔ 2 ۔ خوف کس شئے کا نام ہے ؟
جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے ۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے

سوال ۔ 3 ۔ حَسَد کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے ۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے

سوال ۔ 4 ۔ غُصہ کس بلا کا نام ہے ؟
جواب ۔ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے ۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے ۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو ۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں

سوال ۔ 5 ۔ نفرت کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے.

Pak study GK

Competence vs performance

Competence versus Performance



How do we know that students have learned a language?  We can assess students using formative and summative assessments but how do we know that students will actually be able to use their language in real-life, authentic situations?  In short, how do we know that our students are competent in the target language?  One way to judge this competency is through students’ performance.  However, how do we know that this performance is an accurate measure of what students actually know?  In this section we will examine these questions further by looking at competence versus performance.




What is the difference between competence and performance?
Chomsky separates competence and performance; he describes  'competence' as an idealized capacity that is located as a psychological or mental property or function and ‘performance’ as the production of actual utterances.   In short, competence involves “knowing” the language and performance involves “doing” something with the language. The difficulty with this construct is that it is very difficult to assess competence without assessing performance.

Why is it important to make a distinction between competence and performance?
Noting the distinction between competence and performance is useful primarily because it allows those studying a language to differentiate between a speech error and not knowing something about the language. To understand this distinction, it is helpful to think about a time when you've made some sort of error in your speech. For example, let's say you are a native speaker of English and utter the following:
We swimmed in the ocean this weekend.
Is this error due to competence or performance? It is most likely that as a native speaker you are aware how to conjugate irregular verbs in the past but your performance has let you down this time.   Linguists use the distinction between competence and performance to illustrate the intuitive difference between accidentally saying swimmed and the fact that a child or non-proficient speaker of English may not know that the past tense of swim is swam and say swimmed consistently.

back to top
How do competence and performance apply to the language classroom?
As we have learned, competence and performance involve “knowing” and “doing”. In the recent past, many language instruction programs have focused more on the “knowing” (competence) part of learning a language wherein words and sentences are presented and practiced in a way to best help learners internalize the forms.  The assumption here is that once the learners have ‘learned’ the information they will be able to use it through reading, writing, listening and speaking.   The disadvantage of this approach is that the learners are unable to use the language in a natural way.  Having been trained to learn the language through “knowing”, learners have difficulty reversing this training and actually “doing” something with the language.   In brief, it is difficult to assess whether the learners’ insufficient proficiency is due to limitations of competency or a lack of performance.

In order to focus learners more on the “doing” part of learning, which allows a more accurate measure of learners’ language proficiency, a more communicative approach to teaching can be used.  This type of approach concentrates on getting learners to do things with the language.  If we think of B-SLIM we can see that this relates to the Getting It and Using It stages of the model.  By encouraging students to eventually “learn through the language” as opposed to strictly learning the language there is a more balanced focus on both competence and performance.

انسان اور بندہ

جناب اشفاق احمد نے فرمایا:

ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ:

ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ- ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،

ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ، ﺟﻮ
ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ- ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ،
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﻮ،
ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ،
ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ،

ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ،
ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ،
ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ،
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،

ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﮓ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ،
ﻭﮦ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﺳﺎﺩﮬﻮؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،

ﺗﻢ ﺟﺐ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ، ﺍﻭﻻﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ،

ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﻖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ-

ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ،  ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:

ﺟﺎؤ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ،  ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍللہ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ-

ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ  ﻣﮕﺮﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ- ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻣﯿلہ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ-

ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ

- اشفاق احمد

آسانی

کسی بزرگ نے کہا کہ: "اللہ آپ کو آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا کرے"
جواب دیا کہ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں ، صدقہ دیتے ہیں ، کام والی کے بچے کو تعلیم دلوارھے ھیں، ہم تو کافی آسانیاں بانٹتے ھیں
جواب ملا ;
کسی اداس اور مایوس کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اس کی لمبی بات تسلی سے سننا آسانی ہے۔
کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی تگ ودو کرنا آسانی ہے۔
آفس جاتے ہوے روز کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانا آسانی ہے.
اپنی بھوک کے وقت دوسروں کی بھوک کا سوچنا آسانی ھے۔
کسی بپھرے آدمی کی غلط بات برداشت کرکے اسکا غصه ٹھنڈا کرنا آسانی ہے۔
کسی کی غلطی پر پردہ ڈالنا آسانی ہے۔
ویٹر سے تمیز سے پیش آنا اور اپنے ملازم کی خوشی کا خیال رکھنا آسانی ہے۔
چھابڑی والے کو دام سے کچھ اوپر دے دینا آسانی ہے۔
چوکیدار گارڈ سے گرم جوشی سے ملنا
بے آسرا کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی ہے۔
ہسپتال میں اپنے مریض کی دیکھ بھال کے ساتھ، انجان مریض کے پاس بیٹھ کےتسّلی دینا بھی آسانی ہے۔
ٹریفک میں ایسے شخص کو برداشت کرنا جس کی بائیک آپ کے آگے بند ہو جاۓ، ھارن نه دینا یہ آسانی ہے۔
آسانی گھر سے ہی شروع کریں ،
آج واپس جا کے گھر کی بیل ایک دفعہ دے کے تھوڑا انتظار کریں۔
باپ کی ڈانٹ ایسے سنیں جیسے دوست کا لطیفه یا محبوبه کی گفتگو سنتے ہیں۔
ماں کی آواز کو اذان جاننا آسانی ھے .
جسے کوئی نه پوچھتا ھو اس کی خبرگیری آسانی ھے.
مانگنے والے کا بھرم رکھنا , دیتے ھوئے اسکی آنکھ میں نه جھانکنا آسانی ھے
بہن کی ضرورت اس کیے مطالبے سے پہلے اور بھائی کی تقاضے سے قبل پوری کر دیں۔
بیگم کی غلطی پر اس کو سب کے سامنے درست نہ کریں۔
سالن اچھا نہ لگے تو شکایت نہ کریں ،
استری ٹھیک نہ ہو تو صبر کر لیں۔
۔اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بنائیں۔ منزل خود ہی مل جاۓ گی۔ اللہ ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرماۓ. آمین


🌷🌹🌷

GK

*whatsapp group*

*اساتذہ گروپ📚*
    Important for PST test

• First bank of Pak: = Habib Bank.
• Defece day=6th Sep:
• Defence day of Pakistan is celebrated on Sep: 6 since 1966
• Airforce day= 7th Sep:
• Navy Day=8th Sep:
• Kashmir Day=5th Feb:
• Friday was declared holiday in Jan: 1977.
• EBODO promulgated in 1959.
• PRODA came in 1949-1954.
• Wheat crisis occurred in 1952.
• Number of basic democratc was 80,000.
• Ghuauri is Surface to Surface missile.
• Anza is Surface to Air missile.
• Age of senator is 30.
• Age of PM is 35.
• Number of tribal areas is 11.
• Pakistan Withdrew from SEATO in 1973.
• Pakistan left CENTO in March 1979.
• Nasir Shabir was first Pakistani to conquer Mount Everest.
• Capital of was shifted from Karachi to Islamabad on 1 August 1960.
• Indus Basin Treaty was concluded on 19th Sep 1960.
• KANNUP was established in 1971.
• Tashkent Declaration was signed on 10 Jan 1966.
• Saudi King Shah Faisal visited Pakistan in the year of 1966 and 1974.
• Pakistan was suspended from commonwealth on 18 Oct 1999.
• Mr. Ghulam Muhammad was finance minister before becoming governor general of Pakistan.
• Badr I launched on 16th July 1990.
• First Agriculture University was established in Faisalabasd.
• Pakistan joined SEATO in 1954 but later withdrew from it in the year 1973.
• Moraji Desai, former PM of India was the only Indian leader awarded the highest award of Pakistan for a civilian.•

1- what plants exhale at night
carbondioxide

2- velocity of sound m/s
343

3-which vitamins not stored in human body?

C
4- lake of vitamin c create which disease

skin desease

5-which vitamin help blood clotting?
K

6- founder of muslim rule in india?

qutubuddin abek

7- razia sultana belong to?

slave dynasty

8- second battle of panipat fought b/w

correct option was not present my answer was none of these(akbar vs himu bakal)

9- attock fort was constructed by
akbar

10- mancher lake situated in ?

dadu

11- pakistan number among world population?

6th

12- share of punjab among area of pakistan

25%

13- length of khyber pass
53km

14- urinium resources found in pakistan?
D G khan

15- mostly part of gobi desert found in ?
mangolia

16- taklamakan desert found in
xinjaning china

17- longest river of the world is ?
nile

18- largest sea of the world ?
south china sea

19-largest coastal boundry country?
canada

20- brazil situated in ?
south america

21-which country is peninsula?
saudi arabia

22- pakistan situates on which line?
1- equator 2- cancer 3- inecapricorn 4- none
correet answer is option 4

23- macmohan line is situated b/w ?
india and china

24- who is david patrias?
american general in afghanistan

25- 1 meter is equal to ?
3.28 foot

26- caspian sea makes his boundries with
Iran, Russia, Kazakhstan and Turkmenistan, Azerbaijan.

27- largest agency among area in pakistan?
south wazirastan

28- old name of iraq?
mesopotimia

29-blood is red due to ?
haemoglobin

30-marian trence situated near?
philpines

31- headquarter of ghandhara civilization is?
texila
32- head quarter of saarc is situated at?
khatmandu
33- maximum wool produceing country is?
australia
34- official religion of japan is ?
shintoism
35- which element use for producing nuclear fuel?
urinium
36- who many rakkhu in 30 paraa of quran
39
37-which is less conducter
1- iron, 2-copper 3- silver 4- wood

38-nigara fall lies b/w
u.s.a and Canada

39- which is smallest country of world among area
1- maldeeve 2- malta 3- san marino 4- bahreen
corect answer is option 3 san marino

40-holy prophet pbuh appoited governer of yeman for collection zakat?
hazrat muaz bin jabal

41- who many times zakat mention in quran?
32 times

42-which sura gives details among zakat receiver?
sura tuba

43-where 1st wahii nazall hoe?
ghari hira

44- when zakat declered must ?
2 hijra

45-light of sun reach in earth
8.5 mint( while other options was 3mint 4mint 6.5 mint)

46- headquarter of International labour organization is situated in ?
geneva

47- muslim league name was purposed by?
nawab saleem ullah khan of dhaka

48- juandice is disturb of which part of body?

liver

49- quaid azam leave congress due to
non- coperative moment by gandhi

50-in hapatiets which organ disturb
liver

51- nisab in the amount of gold
87.48 gram( but in paper there was not dot present b/w 87 and48)

52- nisab in silver is?
612.32 gram

53-produce which is equal to nisab?
948kg wheat or equal

54-if a person having millat1800kg whose prize is half among wheat who many rupees he pay zakat
zero

55-who was Father of the French Revolution?
Jean-Jacques Rousseau -

56-statue of freedom in newyark is given by
france

57- wall street is a famous?

stock market in newyork

58- sunlight consist of colours
a-1 b- 3 c-7( not confarm waiting for reply)

59-theory of relativety is presented by?
einstien

60- cash crop is?
which not cultivated for own use

61-artificial cultivated area give amount ushr equal to
1/20

62- if a person obtained something from underground the amount of zakat aplicable
1/5

63-zakat among goat aplicable on
40 goats

64- amount of zakat among gold silver and similar things
2.5 %

65- a government company obtained 1 billion net profit tell who much rupees its gives as a zakat
zero

66-zakat ordinance promulgated on
20 june 1980

67-according to section17 tauluqa committe is equal to
tehsil commiitte

68- dasman palace is residence of
ameer kwait
69-procelain tower is present in
china

70- which muslim organization founded in 1962
Rabita al-Alam al-Islami‎

71- crtography is the study of
secret writting

72-founder of souct momemt
Robert Baden-Powell

73- elysee palace is the residence of
french president

74- second largest population in afghanistan?
tajik

75-worldwide spread disease is called?
epidemic

76- zakat year start on
according to hijra clender

77- zakat year end ?
30 shaban
78- governer appointe chief administer with the consult with
federal government
79- administerator general appointed by
president

80- The magnitude of earthquake is measured with?
Richter Scale

81- Who forwarded the Lahore(Pakistan) Resolution?
A.K fazlul haq

82- East India Company came to India in the reign of:
A)Shah Jahan B) Jahangir C) Aurangzeb D) Babar

83- The largest Muslim country according to area is?
kazakistan

84- Zakat can be spent on:A)
Travelers B) Slaves C) Masakin D)All of these

85- Zakat is exempted on:
A)Sheep grazing fed free in pastures B) Fruits C) Vegetables D) All of them

86- Who was known as the Man of Destiny?
nepolin bona part

87- Adam's Peak is in?
sri lanka

88- According to the Zakat Ordinance Zakat arrears are collected by?
tehsildar

89- Red Cross/Crescent HQ is in?
geneva

90-Brain Drain
transfer of Skilled labors

91--light year complete direction in
1 year

92--musician of antham is
Ahmed gulami chagla

93- first ushr receive ?
1982-83 rabi crop

94-DZ committe disolved if
]member remain not pious

95- if a person failed to pay zakat what act can do?
send a notice

Watsapp

[واٹس ایپ کب اور کس نے ایجاد کی]

بہت ہی کمال کی تحریر ہے ایک بار ضرور پڑھیں
وہ یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘ خاندان عسرت میں زندگی گزار رہا تھا‘ گھر میں بجلی تھی‘ گیس تھی اور نہ ہی پانی تھا‘ گرمیاں خیریت سے گزر جاتی تھیں لیکن یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے‘ اس غربت میں 1992ء میں زیادتی بھی شامل ہو گئی‘ یوکرائن میں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم شروع ہو گیا‘ والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما‘ اٹیچی کیس میں بیٹے کی کتابیں بھریں اور یہ دونوں امریکا آ گئے‘ کیلیفورنیا ان کا نیا دیس تھا‘ امریکا میں ان کے پاس مکان تھا‘ روزگار تھا اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان‘ یہ دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر خیرات کے سہارے چل رہے تھے‘ امریکا میں ’’فوڈ سٹمپ‘‘ کے نام سے ایک فلاحی سلسلہ چل رہا ہے‘ حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے فوڈ سٹمپس دیتی ہے‘ یہ سٹمپس امریکی خیرات ہوتی ہیں‘ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ یہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔
جین کوم کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘ یہ پڑھنے لگا‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی مہنگی ہونے لگی‘ فوڈ سٹمپس میں گزارہ مشکل ہو گیا‘ جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی‘ خوش قسمتی سے اسے ایک گروسری اسٹور میں سویپر کی ملازمت مل گئی‘ اسٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم اور دروازوں کھڑکیوں سے لے کر سڑک تک صفائی اس کی ذمے داری تھی‘ وہ برسوں یہ ذمے داری نبھاتا رہا‘ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا‘ یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی میں لے گیا‘ وہ 1997ء میں ’’یاہو‘‘ میں بھرتی ہوا اور اس نے نو سال تک سر نیچے کر کے یاہو میں گزار دیئے۔
2004ء میں فیس بک آئی‘ یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو تی چلی گئی‘ یہ 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی‘ جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا‘ وہ یہ نوکری حاصل نہ کر سکا‘ وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا‘ وہ آئی فون خریدنا چاہتا تھا لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے تھے‘ اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے اور نیا آئی فون خرید لیا‘ یہ آئی فون آگے چل کر اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے سوچا‘ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو‘ جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے‘ تصاویر بھی بھجوائی جا سکیں‘ ڈاکومنٹس بھی روانہ کیے جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے‘ یہ ایک انوکھا آئیڈیا تھا‘ اس نے یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا‘ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر جت گئے‘ یہ کام کرتے رہے‘ کام کرتے رہے یہاں تک کہ یہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں کراس کر گئی‘ یہ ایپ ٹیلی کمیونیکیشن میں انقلاب تھی‘ اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
یہ ایپلی کیشن واٹس ایپ کہلاتی ہے‘ دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں‘ یہ ایپ دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ ہے‘ آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی آپ کسی موبائل کمپنی کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے‘ آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کے لیے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
فروری 2014ء میں فیس بک بھی ’’واٹس ایپ‘‘ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی‘ فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے اس ہنسی کے دوران ’’فیس بک‘‘ کو ہاں کر دی‘ 19 بلین ڈالر میں سودا ہو گیا‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22 ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی۔
جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی’’میں فوڈ سٹمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر دستخط کروں گا‘‘ فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی‘ یہ لوگ یہ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ڈٹ گیا یہاں تک کہ فیس بک اس کی ضد کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی‘ ایک تاریخ طے ہوئی‘ فیس بک کے لوگ فلاحی سینٹر پہنچے‘ وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا‘ وہ کیوں نہ روتا‘ یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے‘ ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی‘ وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی‘ طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی’’تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے‘ تم کام کیوں نہیں کرتے‘‘ یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی‘ ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے‘ وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے 19 بلین ڈالر کی ڈیل پر ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کیے‘ چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا‘ فوڈ سٹمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی‘ جین نے 19بلین ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا ’’آئی گاٹ اے جاب‘‘ اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔
یہ ایک غریب امریکی کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے‘ یہ داستان ثابت کرتی ہے آپ اگر ڈٹے رہیں‘ محنت کرتے رہیں اور ہمت قائم رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کامیابی کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے‘ .

یاد رکهنے کے لیے

---یاد رکھنے والے سبق---

کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا - کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی تھی،  اتنے میں پرنسپل صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے-
  کلاس روم  میں سناٹا چھاگیا ۔

پرنسپل  صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے کالج کے وزیٹنگ پروفیسر، پروفیسر انصاری ہیں، آپ مفکر دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یہ آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں گے۔ ان کے کئی لیکچر ہوں گے۔ جو اسٹوڈنٹس انٹرسٹڈ ہوں وہ ان کے لیکچر میں باقاعدگی سے شریک ہوں۔

*1*
Sabaq No 01

کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی پروفیسر کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ پروفیسر کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔

وزیٹنگ پروفیسر  انصاری نے ہال  میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ  کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا….

‘‘تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے؟’’….

‘‘یہ ناممکن ہے۔’’، کلاس کے ایک ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں۔’’ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کردی۔

پروفیسر  نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے  بلیک بورڈ پر اس  لکیر کے نیچے ہی اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔   اب اوپر والی لکیر کے سامنے یہ لکیر چھوٹی نظر آرہی تھی۔

پروفیسر نے چاک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا:

‘‘آپ  نے آج اپنی زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھا ہے،  وہ  یہ ہے  دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام  کیے بغیر، ان سے حسد  کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے کس طرح نکلا جاسکتا ہے….’’

آگے بڑھنےکی خواہش  انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو طاقتور اور بڑا بنانے پر توجہ دی جائے۔  دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا، ترقی کا صحیح طریقہ ہے۔ یہ طریقہ فرد کے لیے بھی بہتر ہے اور قوموں کے لیے بھی۔ اس طریقے پر اجتماعی طور پر ہمارے پڑوسی ملک چین نے سب سے زیادہ عمل کیا ہے اور بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔

*2*
Sabaq No 02

دوسرے دن کلاس میں داخل ہوتے ہی  پروفیسر  انصاری نے  بلیک بورٖڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کردیا، اس کے بعد  انہوں نے اس سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے  ایک سیاہ نقطہ ڈالا، پھر اپنا رخ   کلاس کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:

‘‘آپ کو کیا نظر آ رہا ہے….؟ ’’

سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا‘‘ایک سیاہ نقطہ’’۔

طالب علم  تعجب کا اظہار کررہے تھے سر  بھی کمال کرتے ہیں ،  کل لکیر کھینچی تھی آج نقطہ   بنادیا ہے ….

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ حیرت ہے ! اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک چھوٹا  سا سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟’’

زندگی میں کیے گئے لاتعداد اچھے کام سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں جبکہ کوئی غلطی یا خرابی محض ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت دوسروں کی غلطیوں پر توجہ زیادہ دیتی ہے لیکن اچھائیوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔

آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوئی ایک کوتاہی یا کسی غلطی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔

آپ آدھا گلاس پانی کا بھر کر اگر 100 لوگوں سے پوچھیں گے  ، تو کم از کم 80 فیصد کہیں گے آدھا گلاس خالی ہے اور 20 فیصد کہیں گے کہ آدھا گلاس پانی ہے ….   دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا لیکن درحقیقت یہ دو قسم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ جن لوگوں کا انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے  جبکہ مثبت ذہن کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاشکرلیتے ہیں۔

ہماری زندگی کے معاملات میں لوگوں کے ردعمل گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔   ‘‘لوگ کیا کہیں گے’’ جیسے روائتی جملے ہمیں ہمیشہ دو راہوں پر گامزن کردیتے ہیں۔ یہ دوراہی  فیصلہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔اس صورتحال میں صرف نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔

اس لیے آپ مستقل میں کوئی بھی کام کریں، کوئی بھی راہ چنیں ، تو یہ یاد رکھیں کہ  آپ ہر شخص کو مطمئننہیں کرسکتے ۔

*3*
Sabaq No 03

تیسرے دن پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا، جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا۔انہوں نے وہ گلاس بلند کردیا، تاکہ تمام طلبا اسےدیکھ لیں۔

‘‘سر کیا آپ وہی فلسفیانہ سوال تونہیں پوچھنا چاہ رہے کہ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے’’ ایک طالب علم نے جملہ کستے ہوئے کہا۔

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا اور کہا  ‘‘نہیں!  آج میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے  خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا….؟’’

‘‘پچاس گرام’’، ‘‘سو گرام’’، ‘‘ایک سو پچیس گرام’’۔سب اپنے اپنے انداز سے جواب دینے لگے۔

‘‘میں خود صحیح وزن بتا نہیں سکتا، جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کرلوں!….’’ پروفیسر نے کہا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ‘‘ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لیے اسی طرح اٹھائے رہوں….؟’’

‘‘کچھ نہیں ہوگا!’’ طالب علموں نے جواب دیا۔

‘‘ٹھیک ہے، اب یہ  بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یوں ہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’ پروفیسر نے پوچھا۔

‘‘آپ کے بازو میں درد شروع ہوجائے گا۔’’ طلباء میں سے ایک نے جواب دیا۔

‘‘تم نے بالکل ٹھیک کہا۔’’ پروفیسر  نے تائیدی لہجے میں کہا۔‘‘اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’

‘‘آپ کا باوزو شل ہوسکتا ہے۔’’ ایک طالب علم نے کہا۔‘‘آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے’’ ایک اور طالب علم بولا، ‘‘آپ پر فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔ آپ کو اسپتال لازمی جانا پڑے گا!’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری گلاس قہقہے لگانے لگی۔

‘‘بہت اچھا!’’ پروفیسر نے بھی ہنستے ہوئے کہا پھر پوچھا ‘‘لیکن اس دوران کیا گلاس کا وزن تبدیلہوا….؟’’

‘‘نہیں۔’’ طالب علموں نے جواب دیا۔

‘‘تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا….؟’’پروفیسر  نے پوچھا۔طالب علم چکرائے گئے۔

‘‘ گلاس کا بہت دیر تک اُٹھائے رکھنا ، بہتر ہوگا کہ اب گلاس نیچے رکھ دیں!’’ ایک طالب علم نے کہا۔

‘‘بالکل صحیح!….’’ استاد نے کہا۔

‘‘ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک  لگتے ہیں۔انہیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ آپ کے لیے سر کا درد بن جائیں گے۔ انہیں اور زیادہ دیر تک تھامے رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کردیں گے۔ آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

 دیکھیے….!اپنی زندگی کے چیلنجز (مسائل) کے بارے میں سوچنا یقیناً  اہمیت رکھتا ہے۔لیکن…. اس سے کہیں زیادہ اہم  بات یہ ہے کہ ہر دن کے اختتام پر سونے سے پہلے ان مسائل کو ذہن سے اُتاردیا جائے۔ اس طریقے سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا نہیں رہیں گے۔ اگلی صبح آپ تروتازہ اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیدار ہوں گے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو، کسی بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کرسکیں گے۔ لہٰذا گلاس کو  یعنی مسائل پر غیر ضروری سوچ بچار کو نیچے  کرنا رکھنا یاد رکھیں۔’’

*4*
Sabaq No 04

پروفیسر نے  کہا  کہ کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور ٹماٹرساتھ لائے۔

جب طلباء  تھیلا اور ٹماٹر لے آئے تو پروفیسر نے کہا کہ :

‘‘آپ میں سے ہر طالب علم اس فرد کے نام پر جسے آپ  نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک ٹماٹر  چن لیں اور اس  پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں۔’’

سب نے ایک ایک کرکے یہی عمل کیا،  پروفیسر نے کلاس پر نظر ڈالی تو  دیکھابعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے۔

پھر پروفیسر نے سب طالب علموں سے کہا کہ:

  ‘‘ یہ آپ کا ہوم ورک ہے،   آپ سب  ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھریں۔ رات کو سوتے وقت اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں،   جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر میں رکھیں۔ کل ہفتہ ، پرسوں اتوار ہے آپ کی چھٹی ہے، پیر کے روز  آپ ان تھیلوں کو لے کر آئیں اور بتائیں آپ نے کیا سیکھا۔ ’’

پیر کے دن سب طالب علم آئے تو  چہرے پر پریشانی کے آثار تھے، سب  نے بتایا کہ اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہوگیا۔ قدرتی طور پر ٹماٹروں  کی حالت خراب ہونے لگی۔ وہ پلپلے اور بدبودار ہوگئے تھے۔

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ اس ایکسرسائز سے کیا سبق سیکھا….؟’’

سب طلبہ و طالبات خاموش رہے۔

‘‘اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ  ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔

ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا ، کسی پر احسان کرنا اس شخص کے لیے  اچھا ہے لیکن دوسرے کو معاف کرکے ہم خود اپنے لیے لاتعداد فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ جب تک ہم کسی سے ناراض رہتے ہیں ، اس کے خلاف بدلہ لینے  کے لیے سوچتے ہیں اس وقت تک ہم کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا خون جلاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اذیت اور مشقت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ بدلے اور انتقام کی سوچ، گلے سڑے ٹماٹروں کی طرح ہمارے باطن میں بدبو پھیلانے لگتی ہے۔ معاف نہ کرنا ایک بوجھ بن کر ہمارے اعصاب کو تھکا دیتا ہے۔

*5*
Sabaq No 05

‘‘آج ہم نہیں پڑھیں گے….’’

پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سارے طالب علم  حیران و پریشان ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔

‘‘آپ  دو دن  ٹماٹروں  کا تھیلا اٹھائے تھک گئے ہوں گے۔ اس لیے آج آپ کے لیے  چائے کافی  میریطرف سے….’’

اسی دوران لیکچر ہال میں کالج کا پیُون  داخل ہوا اس کے ہاتھ میں کافی کے دو بڑے  سے   جگ تھے ۔ ساتھ ہی بہت سے کپ تھے، پورسلین کے کپ، پلاسٹک کے کپ، شیشے کے کپ، ان میں سے بعض سادہ سے کپ تھے اور بعض نہایت قیمتی، خوبصورت اور نفیس….

پروفیسر  نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘سب اپنی مدد آپ  کے تحت وہ گرما گرم چائے کافی آپ خودلے لیں۔’’

جب تمام طالب علموں نے اپنے چائے اور کافی کے کپ ہاتھوں میں لے لیے تو پروفیسر صاحب  گویا ہوئے ۔

 ‘‘ آپ لوگ غور کریں …. تمام نفیس، قیمتی اور دیکھنے میں حسین کافی کپ اٹھا لیے گئے ہیں، جبکہ سادہ اور سستے کپوں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا،  وہ یوں ہی رکھے ہوئے ہیں۔’’

‘‘اس کا کیا مطلب سر’’۔ ایک طالب علم نے پوچھا

‘‘گو یہ عام سی بات ہے کہ آپ اپنے لیے سب سے بہترین کا انتخاب کرتے ہیں لیکن یہی سوچ آپ کے کئی مسائل اور ذہنی دباؤ کی جڑ بھی ہے۔’’

سارے طالب علم چونک اٹھے، ‘‘ یہ کیا کہہ رہے ہیں سر اچھی چیز کا انتخاب  تو اعلیٰ ذوق کی علامت ہے۔ یہ مسائل کی جڑ کیسے  ….؟’’

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:‘‘آپ سب کو حقیقت میں جس چیز کی طلب تھی، وہ چائے یا کافی تھی….  نہ کہ کپ….  لیکن آپ سب نے دانستہ طور پر بہتر کپوں کے لیے ہاتھ بڑھایا اور سب ایک دوسرے کے کپوں کو چور نگاہوں سے دیکھتے رہے۔’’

میرے بچو …. نوجوانو… یاد رکھو…. زندگی کا اصل حسن باطن سے پھوٹنے والی خوشیوں کی وجہ سے ہے۔ عالی شان بنگلہ، قیمتی گاڑی، دائیں بائیں  ملازمین، دولت کی چمک دمک کی وجہ سے بننے والے دوست یہ سب قیمتی کپ کی طرح ہیں۔ اگر اس قیمتی کپ میں کافی یا چائے بدمزہ ہو تو کیا آپ اسے پئیں گے؟۔

اصل اہمیت زندگی ، صحت اور آپ کے اعلیٰ کردار کی ہے۔ باقی سب کانچ کے بنے ہوئے نازک برتن ہیں، ذرا سی ٹھیس لگنے سے یہ برتن ٹوٹ جائیں گے یا ان میں کریک آجائے گا۔

یاد رکھیے! دنیا کی ظاہری چمک دمک کی خاطر اپنے آپ کو مت گرائیے۔ بلکہ زندگی کے اصلی جوہر کو اُبھاریے۔

تمام تر توجہ صرف کپ پر مرکوز کرنے سے ہم اس میں موجود کافی  یعنی زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔لہٰذا کپوں کو اپنے ذہن کا بوجھ نہ بنائیں…. اس کی بجائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔’’

*6*
Sabaq No 06

پروفیسر صاحب نے کلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک پینسل نکالی اور تمام طلبا  کو دکھاتےہوئے کہا  :

‘‘ آج کا  سبق آپ اس پینسل  سے سیکھیں گے…. پینسل میں   پانچ باتیں ایسی ہیں جو ہم سب کے لیے جاننی ضروری ہیں!….

‘‘وہ کیا سر….’’ سب  نے تجسس سے پوچھا

‘‘پہلی بات :یہ  پینسل عمدہ اور عظیم کام کرنے کے قابل اس صورت میں ہوسکتی ہے ، جب وہ  خود کو کسی کے ہاتھ میں تھامے رکھنے کی اجازت دے۔

دوسری بات :ایک بہترین پینسل بننے کے لیے  وہ بار بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہے۔

تیسری بات: وہ ان غلطیوں کو درست کرنے کی اہل رکھتی ہے ، جو اس سے سرزد ہوسکتی ہیں۔

چوتھی بات :یہ  پینسل کا سب سے اہم حصہ ہمیشہ وہ ہوگا جو اس کے اندر یعنی اس کے باطن میں ہوتا ہے اور  پانچویں بات : پینسل کو جس سطح پر بھی استعمال کیا جائے، وہ  لازمی اس پر اپنا نشان چھوڑ جاتی ۔ چاہے حالات کیسے ہی ہوں۔’’

‘‘اب اس پینسل کی جگہ آپ اپنے کو لے لیں۔

آپ بھی  عمدہ اور  عظیم کام کرنے کے لیے قابل اسی صورت میں ہوسکتے ہیں، جب آپ خود کو   اپنے استاد یا راہنما کے  ہاتھوں میں تھامے رکھنے کی اجازت دیں۔

دوسری بات : آپ کو بات بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑے گا ۔ یہ مراحل  دنیا میں زندگی کے مختلف مسائل کی صورت میں آپ کے سامنے آئیں گے،  ایک مضبوط  فرد بننے کے لیے آپ کو ان مسائل کا اچھے طریقے سے سامنا کرنا ہوگا۔

تیسری بات :یہ کہ اپنے آپ کو ان غلطیوں کو درست کرنے کے قابل بنائیں جو آپ سے سرزد ہوسکتی ہیں۔

چوتھی بات: ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے اندر ہے، ہمارا باطن ہے ، ہمیں اسے  کثافتوں اور آلائشوں سے بچانا ہے۔

پانچویں بات: آپ جس سطح پر سے بھی گزر کر جائیں، آپ اپنے نشان ضرور چھوڑ جائیں۔ چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔

اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اس دنیا کو آپ کی ضرورت ہے، کیونکہ کوئی شے بھی فضول اور بے مقصد نہیں ہوتی۔

*7*
Sabaq No 07

پروفیسر صاحب نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے اپنے طالب علموں پر نظر ڈالی اور کہا

“آج میں تمہیں زندگی کا نہایت  اہم سبق سکھانے جارہا ہوں….’’

وہ اپنے ہمراہ کانچ کا ایک بڑا مرتبان یعنی جار JAR   لائے تھے، انہوں نے اس مرتبان کوٹیبل پر رکھا اور اپنے بیگ سے ٹیبل ٹینس کی گیندیں نکال کر اس مرتبان میں ڈالنے لگے….اور تب تک ڈالتے رہے جب تک اس مرتبان  میں ایک بھی گیند کی جگہ باقی نہ رہی….

پروفیسر صاحب نے طالب علموں سے پوچھا“کیا مرتبان پورا بھر گیا ہے….؟”  “جی ہاں….”طالب علموں نے ایک ساتھ جواب دیا…..

پھر پروفیسر صاحب نے بیگ سے چھوٹے چھوٹے کنکر نکال کر اس مرتبان میں بھرنے شروع کردیے، وہ دھیرے دھیرے مرتبان کو ہلاتے بھی جارہے تھے۔ کافی سارے کنکر مرتبان میں جہاں جگہ خالی تھی سماگئے….

پروفیسر صاحب نے پھر سوال کیا:“کیا اب مرتبان  بھرگیا ہے….؟”

طالب علموں نے ایک بار پھر “ہاں”کہا….

اب  پروفیسر صاحب نے بیگ سے ایک تھیلی نکالی اور اس میں سے ریت  نکال کر دھیرے دھیرے اس مرتبان میں ڈالنی  شروع کردی، وہ ریت بھی اس مرتبان میں جہاں تک ممکن تھا بیٹھ گئی….

یہ دیکھ کر طلباء  اپنی نادانی پر ہنسنے لگے….

پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر سوال کیا

“کیا اب یہ مرتبان پورا بھرگیا ہے ناں….؟”

 “جی!…. اب تو پوری بھر گئی ہے سر….”سب ہی نے ایک آواز میں کہا….

پروفیسر نے بیگ کے اندر سے جوس  کے دو پیک  نکال کر جوس اس مرتبان میں ڈالا، جوس  بھی ریت کے بیچ تھوڑی سی جگہ میں  جذب ہوگیا  ….اب پروفیسر صاحب نے نہایت ہی گھبمیر آواز میں سمجھانا شروع کیا….

‘‘اس کانچ کے مرتبان کو تم لوگ اپنی زندگی سمجھو، ٹیبلٹینس کی گیندیں تمہاری زندگی کے سب سے اہم کام ہیں….. مثلاً طرزِ معاشرت، حصولِ معاش، تعلیم وتربیت، خاندان ، بیوی بچے، نوکری،  صحت  وتحفظ وغیرہ….  چھوٹے کنکر تمہاری عام ضروریات اور خواہشات ہیں۔ گاڑی، بنگلہ، نوکرچاکر، موبائل، کمپیوٹر اور دیگراصرافِ زندگی وغیرہ….اور ریت کا مطلب ہے چھوٹی چھوٹی بےکار اور فضول باتیں، جھگڑے، آوارہ گردی، ہوائی قلعہ بنانا، ٹائم پاس کرنا،  وقت کاضیاع وغیرہ ….

 اگر تم نے کانچ کےمرتبان  میں سب سے پہلے ریت بھری ہوتی تو ٹیبل ٹینس کی گیند اور کنکرکے لیے جگہ ہی نہیں بچتی یا صرف کنکر بھردیے ہوتے تو گیند نہیں بھرپاتے ، ریت ضرور آسکتی تھی….

ٹھیک یہی طریقہ کار زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر تم فضول اور لایعنی چیزوں کے پیچھے پڑے رہو گے اور اپنی زندگی اسی  کے چکر میں ختم کردو گے تو  تمہارے پاس اہم باتوں کے لیے وقت نہیں رہے گا….

ایک کامیاب  اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے یہ اہم سبق ہے ۔  اب یہ تم خود  طے کرلو کہ تمہیں اپنا کانچ کا مرتبان کس طرح بھرنا ہے’’….

طالب علم  بڑے غور سے  پروفیسر صاحب کی باتیں سن رہے تھے،  اچانک ایک طالبعلم نے پوچھا “سر! لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جوس کے دو پیک کیا ہیں؟”….

پروفیسر مسکرائے اور بولے “میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک کسی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا…. اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں اور کس قدر ہی کامیابیاں کیوں نہ سمیٹ رہے ہوں لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں کےساتھ  تعلق کی مٹھاس کی گنجائش ہمیشہ رکھنی چاہیے”….

*8*
Sabaq No 08

آج لیکچر کا آخری دن تھا ، کلاس روم کے طلبہ میں چہ مگوئیاں جاری تھیں،   اتنے میں پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے،  کلاس روم کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ گہری خاموشی میں بدلنے لگی۔  دیکھا کہ پروفیسر کے پیچھے  ایک غبارے والا ڈھیر سارے سرخ رنگ کے کلاس روم میں داخل ہورہا ہے ….

پروفیسر کے اشارے پر غبارے والے نے ایک ایک کرکے سارے غبارے طلباء میں تقسیمکردئیے….

‘‘سر آج ویلنٹائن ڈے  نہیں ہے….’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا۔ ‘‘ سر!کیا آپ کی سالگرہ ہے؟’’ ایک اور طالب علم بولا۔

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:

‘‘آپ میں سے ہر ایک کومارکر کا استعمال کرتے ہوئے ا ن غباروں پر اپنا نام لکھنا ہے ’’۔   سب نے پرفیسر کی کہنے پر   نام لکھ دئے ۔  اس کے بعد تمام غبارےجمع کرکے دوسرے کمرے میں ڈال دیے گئے۔ آپ  پروفیسر نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘اب سب غباروں والے کمرے میں جائیں اور اپنے اپنے نام والا غبارہ تلاش کریں ، دھیان رہے کہ کوئی غبارہ نہ بھٹے اور آپ سب کے پاس پانچ  منٹ  ہیں۔’’

ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہوئے،دوسروں کو دھکیلتے ہوئے اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگا۔ ایک افراتفری کا سماں  تھا۔ سارے غبارے ایک ہی رنگ کے تھے،  پانچ منٹ تک کوئی بھی اپنے نام والا غبارہ تلاش نہ کرسکا….  یہ دیکھ کر پروفیسر انصاری نے کہا کہ

 اب آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں کوئی بھی غبارہ  پکڑ لیں اور اس کے نام والے شخص کودے دیں، دو تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ تمام افراد کے پاس اپنے اپنے نام والے غبارے تھے۔

پروفیسر انصاری کلاس  سے مخاطب ہوتے ہوئےبولے:

 ‘‘بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں اپنے ارد گرد خوشیاں تلاش کر رہا ہے یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کہاں ہیں۔

نوجوانوں…. یاد رکھو…ہماری خوشی دوسروں کی خوشی میں پنہاں ہے، ان کو ان کی خوشی دے دیں تو آپ کو آپ کی خوشی مل جائے گی ۔’’

چهه باتیں

درس حدیث
جنت میں لے جانے والی چھ باتیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین باتیں اگر کسی شخص کے اندر پائی جائیں تو اللہ تعالٰی اس شخص کو قیامت کےدن اپنی حفاظت میں لے گااوراسے جنت میں داخل کرے گا
1 کمزوروں کے ساتھ نرمی کا برتاو 2 والدین کے ساتھ شفقت ومحبت 3 غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک
اور تین صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں پائی جائیں گی اللہ اس کو اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا اس دن جب اس کے  سائےکے سوا کوئی سایہ نہ ھوگا
1 ایسی حالت میں وضو کرے جب کے وضو کرنے کو طبعیت نہ چاہے  (سخت سردی کےدنوں میں )2 تاریک راستوں میں مسجد کو جانا(نماز باجماعت کے لہے) 3 بھوکے آدمی کوکھانا کھلانا (ترغیب و ترہیب )

جی

السلام علیکم..  دانا اپنی دانائی کو چھپاتا ھے،جبکھ احمق اپنی حماقت کی تشھیر کرتا ھے.